Home » » Breaking News In Urdu

Breaking News In Urdu



ایپل کمپنی کے تیارہ کردہ آئی پیڈ پر انسٹال کردہ تھرڈ پاٹی کی ایک ایپ میں غلطی کی وجہ سے امریکی فضائی کمپنی ’امیرکن ایئر لائن‘ نے اپنے درجنوں جہازوں کو پرواز سے روک دیا۔
یہ تکنیکی خرابی آئی پیڈ کے سافٹ ویئر کی وجہ سے ہوئی اور اس نے کام کرنا بند کردیا۔ پائلٹ اور ان کے معاونین پروازوں کے بارے میں معلومات دیکھنے کے لیے آئی پیڈ استعمال کرتے ہیں۔
’امیرکن ایئر لائن‘ نے اپنے عملے کو جہاز پر بہت زیادہ لکھائی کے مشکل کام سے بچانے کے لیے دو ہزار تیرہ میں کاغذوں کا استعمال ختم کر دیا تھا۔ فضائی کمپنی کا اندازہ تھا کہ کاغذوں کا استعمال ختم کرنے سے اسے ہر سال ایک اعشاریہ دو ملین ڈالر (سات لاکھ ترانوے ہزار چھ سو پاؤنڈ) کا فائدہ ہوگا جسے ایندھن خریدنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
فضائی کمپنی کا کہنا ہے کہ ایپ کی غلطی کو اب ٹھیک کر لیا گیا ہے۔ کمپنی کے ایک ترجمان کا کہنا تھا ’کچھ پائلٹوں کے آئی پیڈ پر ایک ایپ کی وجہ سے ہمیں تکنیکی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ تکنیکی خرابی آئی پیڈ کی وجہ سے نہیں بلکہ اس پر انسٹال کی گئی ایک ایپ کی وجہ سے ہوئی جسے ایک تھرڈ پارٹی نے بنایا تھا۔ اس خرابی سے گزشتہ رات اور بدھ کی صبح کچھ پروازوں کی روانگی میں تاخیر ہوئی۔‘
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمارے پائلٹوں نے جہاز کے اڑنے سے پہلے ایک بار پھر سے اس ایپ کو ڈاؤن لوڈ کر کے مسئلے کا حل ڈھونڈ لیا ہے۔ اس کے علاوہ متبادل کے طور پر پائلٹ کاغذی جدولوں پر بھی انحصار کر سکتے ہیں جو انھیں ایئر پورٹ سے مل سکتے ہیں۔‘
’ہمیں افسوس ہے کہ ہمارے مسافروں کو پریشانی اٹھانا پڑی اور ہم اس پر معافی مانگتے ہیں۔‘
’امیرکن ایئر لائن‘ کے پائلٹ ’فلائٹ ڈیک‘ نامی ایک ایپ استعمال کرتے ہیں جسے بوئنگ کی ایک ذیلی کمپنی جیپیسین نے تیار کیا ہے۔ اس فرم کے ایک ترجمان نے صورتِ حال کو مزید واضح کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ مسئلہ امریکی ڈیٹا بیس کے چارٹس میں ریگن نیشنل ایئر پورٹ کے چارٹ کی ایک نقل کی وجہ سے پیدا ہوا۔ ایپ اس نقل کو ٹھیک طرح سے کام میں نہ لا سکی جس کی وجہ سے ایپ نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ ہم نے جلد ہی صورتِ حال پر قابو پا لیا اور پائلٹوں کو ہدایت کی کہ پہلے وہ پرانی ایپ کو آئی پیڈ سے ڈیلیٹ کریں اور پھر دوبار انسٹال کر لیں۔ جب تک چارٹوں کی ڈیٹا بیس کو اپ ڈیٹ نہیں کیا جاتا، ’امیرکن ایئر لائن‘ کے پائلٹ ریگن نیشنل ایئر پورٹ سے پرواز کرتے یا اس پر اترتے وقت چارٹ کے پی ڈی ایف امیج استعمال کریں گے جن کا آئی پیڈ میں انسٹال کردہ ایپ سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔‘
’امیرکن ایئر لائن‘ واحد فضائی کمپنی نہیں ہے جس کے پائلٹ اور جہاز کا عملہ کاغذی چارٹ چھوڑ کر ٹیبلٹ استعمال کرتا ہے۔ یونائیٹڈ ایئر لائن نے کافی عرصہ قبل آئی پیڈ استعمال کرنا شروع کر دیا تھا جبکہ ایک اور فضائی کمپنی ڈیلٹا نے آئی پیڈ کے بجائے مائیکروسافٹ کی سرفیس ٹیبلٹ کا استعمال شروع کر رکھا ہے۔
برطانوی فضائی کمپنیاں برٹش ایئر ویز اور رائن ایئر بھی کاغذی چارٹ چھوڑ کر الیکٹرونک فلائٹ بیگ پر مبنی نظام کی طرف منتقل ہو رہی ہیں۔
ایندھن پر اٹھنے والے اخراجات بچانے کے علاوہ کہا جاتا ہے کہ کاغذ کے بجائے اس نظام کے استعمال سے پرواز کی تیاری میں کم وقت لگتا ہے، زخم لگنے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں اور عملے کو اپ ڈیٹ اسی وقت مل جاتے ہیں جب یہ اپ ڈیٹ بھیجے جاتے ہیں۔















گذشتہ موسمِ گرما میں دو ماہ تک ایک غیر معمولی بینک ڈکیت نے امریکہ کو حیران و پریشان کر رکھا تھا۔
وہ ایک نوجوان، خوش لباس اور پست قد خاتون تھی۔ جس نے یکے بعد دیگرے کئی بینک لوٹے۔
یہ کہانی ہے بھارت کے شہر چندی گڑھ میں پیدا ہونے والی 25 سالہ سندیپ کور کی ہے۔
سندیپ کور ان دنوں امریکی شہر سیڈر کی آئرن کاؤنٹی کی جیل میں قید ہیں اور وہاں ان سے نامہ نگار حیف مائیش نے ملاقات میں اپنی روداد سنائی۔
سندیپ کور والنشیا میں بینک آف ویسٹ سے ڈکیٹتی کرنے کے بعد فرار ہوئیں جہاں انھوں نے 21 ہزار دو سو ڈالر سے کچھ زیادہ کے لیے اپنی زندگی اور آزادی کو خطرے میں ڈالا تھا اور اس کے بعد ایریزونا، کیلیفورنیا اور یوٹاہ میں بھی بینک ڈکیتی کی۔
سندیپ کو بم کی دھمکیاں دے کر ڈکیتی کرنے کے انداز اور دلفریب حلیے سے متاثر ہو کر ایف بی آئی نے انھیں’بم شیل بینڈت‘یا پُرکشش خاتون ڈکیپ کا نام دیا تھا اور عوام سے ان کی گرفتاری میں مدد کی درخواست بھی کی گئی تھی۔
سندیپ کور نے بتایا کہ ان کے نام کا مطلب ہے ’سورج کی پہلی کرن‘۔ وہ سات برس کی عمر میں اپنی ماں اور بھائی جتندر کے ساتھ اپنے والد کے پاس امریکہ آئے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ وہ کیلیفورنیا کے بھارتی آبادی والے علاقے سین جوس پہنچے ’ لیکن جہاں تک مجھے یاد ہے میں خود کو اجنبی محسوس کر رہی تھی۔‘

کور نے بتایا کے انھوں نے ایسا ایک بار کیا پھر دوسری بار اور اس کے بعد وہ ہر ہفتے لاس ویگس جانے لگیں۔ وہاں انھوں نے تاش کا کھیل ’ بکارت‘ دیکھا

ان کا کہنا تھا کہ سنہ 2001 میں نائن الیون کے واقع کے بعد سے نسلی تعصب بڑھنا شروع ہو گیا۔ ’مجھے سکول میں دہشت گرد کہا جاتا اور سوال کیا جاتا کہ کیا تمھارے والد نے یہ کیا ہے؟‘
کور اور ان کے بھائی نے اس اذیت سے بچنے کے لیے سکول جانے کے خوف سے چھپنا شروع کر دیا لیکن انھیں سکول سے معطل کر کے سزا کے طور پر ایک بورڈنگ سکول بھیج دیا گیا۔
جب ان کی والدہ بیمار ہوئیں تو اس وقت سندیپ کی عمر 14 برس تھی۔ وہ وہاں ایک خوش اخلاق نرسنگ مینجر سے بہت متاثر ہوئیں۔ 19 برس کی عمر میں کور باقاعدہ پرفیشنل نرس بن چکی تھیں۔
جلد ہی انھوں نے طبی سہولیات فراہم کرنے والی ایک ایجنسی کے ساتھ کام کرنا شروع کر دیا اور ایک ماہ میں چھ ہزار ڈالر کمانے لگیں۔
سنہ 2008 میں امریکی معیشت تنزلی کا شکار تھی۔ کور نے بتایا کہ انھوں نے سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرنا شروع کر دی۔
’میں یہ کرنا چاہتی تھی اور میں نے اپنی اور اپنے والدین کی تمام بچت اس میں لگا دی۔ میں نے بڑی احتیاط کے ساتھ انشورنس بینکوں میں سرمایہ کاری کی اور آخر میں دو لاکھ ڈالر بنا لیے تھے۔‘
’کچھ عرصے بعد میں نے جوا کھیلا اور دو ہزار ڈالر کے قریب جیتے، یہ میرے لیے بہت لطف کا باعث تھا۔ میں نے بلیک جیک کھیلا اور جیتی گئی۔‘
کور نے بتایا کے انھوں نے ایسا ایک بار کیا پھر دوسری بار اور اس کے بعد وہ ہر ہفتے لاس ویگاس جانے لگیں۔ وہاں انھوں نے تاش کا کھیل ’بیکراٹ‘ دیکھا۔
’میں جب بھی بیکراٹ کو دیکھتی میرا دل خوش ہو جاتا۔اور دھوپ کے مہنگے چشمے میری کمزوری تھے۔ میں پہلے جا کر ان چشموں کی قیمت دیکھتی اور پھر اتنے ہی پیسوں کا جوا کھیلتی تھی اگر جیت جاتی تو خرید لیتی۔‘

سنہ 2008 میں امریکی معیشت تنزلی کا شکار تھی۔ کور نے بتایا کہ انھوں نے سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرنا شروع کر دی

رفتا رفتا یہ سلسلہ بڑھتا چلا گیا اور ایک دن سندیپ نے اپنی کزن امندیپ کو بتایا کہ وہ 60 ہزار ڈالر ہار گئی ہیں۔امندیپ نے بتایا کہ وہ اسی وقت سمجھ گئیں تھیں کہ کور مشکل میں ہے۔
کچھ ہی عرصے بعد سندیپ اپنی زندگی کی تمام تر بچت جوئے میں ہارنے کے ساتھ ساتھ کیسینو کی قرض دار ہو گئی تھیں۔
تب کچھ اجنبی لوگ سندیپ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ آپ بہت اچھا کھیلتی ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ آپ کے پاس اس وقت پیسے نہیں ہیں۔
انھوں نے کہا کہ وہ انھیں کچھ پیسے قرض کے طور پر دینے کے لیے تیار ہیں لیکن اس پر سود کی شرح بہت زیادہ ہو گی۔ سندیپ ان سے وہ پیسے لینے کے لیے رضامند ہو گئیں۔
لیکن سندیپ وہ پیسے بھی جوئے میں ہار گئیں۔جس کے بعد وہ ایک سال تک لاس ویگاس سے دور رہیں تاکہ ان لوگوں سے چھپ سکیں جن کے انھوں نے پیسے دینے تھے۔
26 مارچ سنہ 2014 کو سندیپ نے دیکھا کہ ایک سیاہ رنگ کی گاڑی ان کا پیچھا کر رہی ہے تو انھیں لگا کہ شاید ان کے والد نے کسی سے ان کا پیچھا کرنے کا کہا ہے لیکن بعد میں وہ لوگ سندیپ کی گاڑی میں آ کر بیٹھے اور کہا کہ ’ آپ سندیپ ہیں؟ آپ نے ہمارے 25 ہزار ڈالر دینے تھے لیکن یہ کافی نہیں ہیں ہمیں زیادہ چاہیے۔‘
سندیپ کور نے بتایا کہ ’ انھوں نے مجھ سے 35 ہزار ڈالر مانگے جو میرے پاس نہیں تھے تو انھوں نے مجھ سے کہا جاؤ بینک ڈکیتی کرو یا کسی گھر میں چوری کرو جو کرنا ہے کرو ہمیں پیسے چاہیے اور انھوں نے مجھے پستول بھی دینے کی کوشش کی۔‘
بہت سوچنے کے بعد جب کوئی راستہ نہ ملا تو سندیپ نے بینک ڈکیتی کرنے کا فیصلہ کر لیا اور صرف 11 دن بعد ہی وہ پہلی بینک ڈکیتی کرنے کے بعد وہاں سے فرار ہوکر قرض خواہوں کے پاس گئیں اور انھیں پیسے دیے جسے دیکھ کر انھوں نے سندیپ سے مزید پیسوں کا مطالبہ کر دیا۔
وہاں سے نکلنے کے بعد سندیپ پھر جوئے خانےگئیں اور پھر سے جوا کھیلنے کا فیصلہ کیا تاکہ آسانی کے ساتھ کچھ پیسے بنا سکیں۔ سندیپ وہاں جیتنے ہی والی تھیں کے اچانک کیسینو کے سکیورٹی اہلکار نے ان کے پاس آ کر بتایا کہ ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہوئے ہیں۔

جج نے سندیپ کور کو 66 ماہ جیل اور چوری کی ہوئی تمام رقم واپس کرنے کی سزا سنائی

’مجھے لگا کہ بس سب ختم ہو گیا ہے اور مجھ پر بینک ڈکیتی کا جرم بھی ثابت ہو جائے گا لیکن خوش قسمتی سے ایسا نہیں ہوا اور امندیپ نے بعد میں 15 ہزار ڈالر جمع کروا کر میری ضمانت کروا دی ۔‘
اس کے بعد سندیپ نے اپنا موبائل فون نکالا اور دوسرا بینک تلاش کرنے لگیں۔ ’ میں نے سوچا کہ اگر میں ایک اور بینک ڈکیتی سے 20 ہزار ڈالر حاصل کر لوں تو اس مشکل سے جان چھڑا لوں گی۔‘
سندیپ کور ایریزونا کے ایک بینک میں سیاہ چست لباس اور اپنا پسندیدہ دھوپ کا چشمہ پہنے داخل ہوئیں اور ایک بینک اہلکار کو کاغذ دیا جس پر لکھا ہوا تھا ’میرے پاس بم ہے مجھے ایک لاکھ ڈالر دے دیں، میں یہ نہیں کرنا چاہتی لیکن پانچ افراد مجھے سے یہ کروا رہے ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ وہاں سے جانے کے بعد جب رقم کی گنتی کی تو وہ صرف دو ہزار ڈالر ہی تھے تب انھوں نے تیسری بینک ڈکیتی کرنے کا فیصلہ کیا۔
کیا ایک کے بعد دوسری ڈکیتی کرنے کے بعد یہ سب سندیپ کے لیے آسان ہوتا جا رہا تھا۔؟ سندیپ نے کہا: ’ ہر ڈکیتی مختلف تھی۔‘
چھ دنوں میں دو ڈکیتیاں کرنے کے بعد بھی سندیپ قرض واپس کرنے میں ناکام رہیں تو انھوں نے سینٹ جارج میں یو ایس بینک کا رخ کیا اور خاتون کیشیئر سے کہا کہ ’ کیا آپ کے پاس دو منٹ ہیں مجھے 50 ہزار ڈالر دینے کے لیے یا پھر میں آپ کو گولی مار دوں؟، یہ مذاق نہیں ہے۔‘
اسی دوران جب سندیپ کور بنک سے پیسے لے کر فرار ہو رہی تھیں بینک مینجر انھیں دیکھ رہے تھے۔ انھوں نے پولیس کو کال کر کے سندیپ کی گاڑی کا حلیہ بتایا۔
سندیپ گاڑی کو 130 میل فی گھنٹہ کی رفتار پر چلاتے ہوئے وہاں سے فرار ہو گئیں۔کافی دور تک پولیس ان کا پیچھا کرتی رہی لیکن سندیپ گاڑی روکنے کو تیار نہیں تھیں۔
آخر کار بہت دور نیواڈا ہائی وے کے قریب پولیس انھیں روکنے میں کامیاب ہو گئیں اور ایک پولیس افسر نے انھیں گاڑی سے باہر آنے کے لیے کہا۔
اتنے میں میڈیا، ہیلی کاپٹر اور مزید پولیس اہلکار بھی وہاں پہنچ گئے تھے۔ انھوں نے سندیپ سے کہا کہ وہ انھیں ہسپتال لے جا رہے ہیں جیل نہیں، لیکن وہ جھوٹ بول رہے تھے۔
اس دوران امندیپ کے موبائل پر ایک پیغام موصول ہوا’میں نے بینک ڈکیتی کی ہی، سب غلط کر دیا ہے۔‘
جج نے سندیپ کور کو 66 ماہ جیل اور چوری کی ہوئی تمام رقم واپس کرنے کی سزا سنائی جس پر سندیپ نے جج کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: ’میری گرفتاری میرے لیے باعث سکون ہے۔‘
جیل میں ملاقات کے ختم ہونے سے چند منٹ قبل سندیپ کور نے بتایا کہ ان کی مذہب میں دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’میں نے اپنے ساتھ تو جو کیا سو کیا، لیکن اب میرا مقصد یہ ہے کہ میں دوسروں کی مدد کرنے کے لیے کیا کر سکتی ہوں۔‘

Share this article :

0 comments:

Post a Comment

Thanks for taking the time to comment

 
Copyright © 2015. Free Books Store